اتوار، 30 نومبر، 2014

والدین کو پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مالکان کی لوٹ کھسوٹ سے بچایا جائے

جماعت اسلامی کے ضلعی امیرسردار ظفر حسین خان ایڈووکیٹ نے تعلیم کے نام پرپرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مالکان کی لوٹ کھسوٹ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم کو صنعت و تجارت بنا دینے والوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے، اتنا منافع شوگر ملوں اور ٹیکسٹائل ملوں والے نہیں کما رہے ہوں گے جتنا منافع غیر معیاری تعلیم دینے والے پرائیویٹ میڈیکل کالجز دھونس اور دھاندلی سے کما رہے ہیں۔ نجی میڈیکل کالج ایک طالب علم سے پندرہ لاکھ روپے سے زائد سالانہ فیس لے رہے ہیں اس کے برعکس سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایک سٹوڈنٹ کی فیس 40 ہزار روپے سالانہ سے کم ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نجی میڈیکل کالجز کے بارے میں از خود نوٹس لے کر ان کے تمام معاملات کی تحقیقات کروائیں اور ایک مقررہ حد تک فیسوں کی وصولی کی اجازت دیں تاکہ غریب کا بچہ بھی وہاں تعلیم حاصل کر سکے۔انہوں نے کہا کہ نجی میڈیکل کالجوں میں ایک سرکاری میڈیکل کالج کے مقابلہ میں انتہائی کم معیار کی تعلیم دی جاتی
ہے۔ اکثریت پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے پاس مطلوبہ تعداد میں سٹاف ہی موجود نہیں جہاں پروفیسر کی ضرورت ہے وہاں کام ایسوسی ایٹ پروفیسرز بلکہ اسسٹنٹ پروفیسروں سے چلایا جا رہا ہے۔اگر حکومت کے قوانین کے مطابق پرکھا جائے تو ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے قیام کی منظوری دی ہی نہیں جا سکتی تھی۔انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے پاس مطلوبہ معیار کے ٹیچنگ ہسپتال ہی موجود نہیں۔ بہت سارے پرائیویٹ میڈیکل کالج کروڑوں روپے سالانہ نہیں بلکہ کروڑوں روپے ماہانہ کمانے کے باوجود اپنے ٹیچنگ ہسپتالوں میں غریب مریضوں کے مفت علاج کی شرط پوری نہیں کر رہے، ناقص تعلیم بھی کروڑوں روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں