جماعت اسلامی کے ضلعی امیرسردار ظفر حسین خان ایڈووکیٹ نے کہاہے کہ لاپتہ افراد کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے واضح اور دوٹوک موقف کے مطابق مقدمہ چلائے بغیر کسی شہری کا اغوا ، نامعلوم مقامات پر زیر حراست رکھنااور تشدد کرنا اسلام ، آئین پاکستان ، انسانی حقوق اور خود انسانیت کی توہین اور سنگین جرم ہے ، محض شک کی بنیاد پر لوگوں کو اغوا کرکے کئی کئی برس عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتاہے جو بنیادی حقوق کی تذلیل کے مترادف ہے ، جماعت اسلامی کے مغوی کارکن مصور اقبال کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔ ان خیالات کااظہار انہو ں نے المرکز الاسلامی چنیوٹ بازار میں مبینہ طور پر ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواء کئے گئے جماعت اسلامی کے کارکن مصور اقبال کے والد محمد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ عدالتی احکامات کو مذاق سمجھنے کی روش ترک ہونی چاہئے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کاقانون اب زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف عدالت میں ٹھوس ثبوت پیش کرکے سزادلوائی جائے۔ وزرات دفاع کو اپنی حیثیت اور اختیارات واضح طور پر معلوم ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔سینکڑوں افراد تاحال گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے سوا کچھ نہیں کررہے۔جب تک پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی عوام کو تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران لاپتہ افراد کے معاملے کوسنجیدگی سے لیں اوراپنی آئینی وقانونی ذمہ داریوں کوپورا کرتے ہوئے تمام لاپتہ افراد کو فی الفور بازیاب کرائیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک محب وطن جماعت ہے جس کے کارکنوں نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کے عوام کے لئے اپنی جانی اور مالی قربا نیاں دینے سے گریز نہیں کیا اورجماعت اسلامی کے کارکن کبھی بھی کسی غیر قانونی سرگرمی میں لوث نہیں پائے گا۔اگر پولیس یا کسی ادارے کے پاس کوئی ثبوت ہے تو اسے عدالت میں لایا جائے ورنہ بوڑھے والدین کے واحد سہارے کو فوری طور پر بازیاب کروایا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں